مظفرآباد (کاشف جاوید سے)وزیر خزانہ آزاد کشمیر عبدالماجد خان اور وزیر خوراک چوہدری اکبر ابراہیم کا حکومت سے علحیدگی کا اعلان،وزیر اعظم آزاد کشمیر پر سنگین الزامات، مہاجرینِ مقیمِ پاکستان کے حقوق غصب کرنے کا دعویٰ۔آزاد جموں و کشمیر کی سیاست میں ایک بڑا دھماکہ خیز موڑ، وزیر خزانہ آزاد کشمیر عبدالماجد خان اور وزیر خوراک نے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دینے کا باضابطہ اعلان کر دیا۔ وزراء نے مرکزی ایوانِ صحافت مظفرآباد میں ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے حکومت پر سنگین نوعیت کے سیاسی، آئینی، مالی اور انتظامی الزامات عائد کیے اور مؤقف اختیار کیا کہ موجودہ حکومت نے مہاجرینِ مقیمِ پاکستان کے آئینی حقوق پر ڈاکہ ڈالا ہے، نفرت انگیز بیانیہ فروغ دیا ہے، اور ریاستی وحدت کو نقصان پہنچایا ہے۔عبدالماجد خان نے اپنے خطاب میں کہا کہ گزشتہ ایک سال سے ریاست میں ایک خطرناک اور منظم نفرت انگیز بیانیہ تشکیل دیا گیا، جس کا مقصد ”مہاجرینِ مقیمِ پاکستان اور مقامی شہریوں ” کے درمیان تفریق پیدا کرنا ہے۔انہوں نے کہایہ پہلی بار ہے کہ ریاست کے اندر نفرت کو بنیاد بنا کر سیاست کی جا رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر مہاجرین کو ہدف بنایا گیا، انہیں غدار اور لوٹ مار کرنے والا قرار دیا گیا۔ یہ رویہ نہ صرف اخلاقی طور پر ناقابل قبول ہے بلکہ ریاستی یکجہتی پر براہِ راست حملہ ہے۔انہوں نے کہا کہ آزاد کشمیر کی بنیاد ہی 1947 میں ان مہاجرین کی قربانیوں پر رکھی گئی جو اپنے گھر بار چھوڑ کر اس خطے کی آزادی کے لیے نکلے۔ آج انہی لوگوں کو نشانہ بنانا تاریخ سے غداری ہے۔وزیر خزانہ نے اپنی پریس کانفرنس میں مالی اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے الزام لگایا کہ حکومت نے ترقیاتی بجٹ کو مخصوص مقاصد کے لیے استعمال کیا۔انہوں نے کہا> ”2005 کے زلزلے کے بعد حکومت پاکستان کی جانب سے آزاد کشمیر کو 16 کھرب 50 ارب روپے موصول ہوئے، جن میں سے 340 ارب روپے ترقیاتی منصوبوں کے لیے مختص تھے، مگر آج نہ اسکولوں کی عمارتیں مکمل ہیں، نہ سڑکیں بہتر ہوئیں، نہ اسپتالوں میں ادویات دستیاب ہیں۔انہوں نے کہا کہ ”حکومت نے ترقیاتی فنڈز کو سیاسی وفاداریاں خریدنے کے لیے استعمال کیا، جبکہ مہاجرین کے حلقوں کو جان بوجھ کر نظرانداز کیا گیا۔عبدالماجد خان نے حالیہ حکومتی فیصلوں کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ ”ایک غیر رجسٹرڈ تنظیم کے ساتھ غیر قانونی معاہدہ کیا گیا، جو آئین اور قانون دونوں کے منافی ہے۔انہوں نے کہاحکومت نے ایسے افراد سے مذاکرات کیے جن کی نہ کوئی نمائندگی ہے، نہ کوئی قانونی حیثیت۔ یہ اقدام دراصل ریاستی نظام کو مفلوج کرنے اور مخصوص طبقے کو نوازنے کی سازش ہے۔ مہاجرینِ مقیمِ پاکستان کی نشستیں ختم کرنا ریاستی مفاد کے خلاف بات کرتے ہوئے کہا کہ عبدالماجد خان نے کہا کہ حکومت آزاد کشمیر کی تاریخ بدلنے جا رہی ہے، مہاجرینِ مقیمِ پاکستان کی 12 نشستیں ختم کرنے کی کوشش دراصل ”ریاست کے جغرافیائی تصور اور آئینی حیثیت” کو ختم کرنے کے مترادف ہے۔انہوں نے کہامہاجرینِ مقیمِ پاکستان ریاست جموں و کشمیر کا حصہ ہیں۔ ان کی نمائندگی کا ختم کیا جانا، مسئلہ کشمیر کے عالمی موقف کو کمزور کرنے کی دانستہ کوشش ہے۔ یہ سازش دراصل بھارت کے بیانیے کو تقویت دینے کے مترادف ہے۔انہوں نے دنیا کے مختلف ممالک کی مثالیں دیتے ہوئے کہا کہ ”فرانس، اٹلی، پرتگال، الجزائر اور دیگر ممالک میں بیرونِ ملک شہریوں کو اسمبلی میں نمائندگی حاصل ہے۔ آزاد کشمیر میں بھی یہی اصول رائج ہے، جسے اب ختم کیا جا رہا ہے۔وزیر خزانہ نے اپنے خطاب میں وزیر اعظم آزاد کشمیر چوہدری انوار الحق پر براہِ راست تنقید کرتے ہوئے کہا کہ> ”وزیر اعظم نے ریاستی اداروں کو تقسیم کیا، بیوروکریسی کو ذاتی وفاداریوں میں بانٹا، اور عوامی فلاح کے منصوبوں کو سیاسی دشمنی کی نذر کیا۔”انہوں نے کہا کہ ”ہم نے بارہا وزیر اعظم کو متنبہ کیا کہ عوامی مسائل حل کریں، مگر ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔انہوں نے کہا کہ آزاد کشمیر میں بجلی، آٹا، صحت اور تعلیم کے شعبے تباہی کے دہانے پر ہیں۔آٹا نایاب، ادویات غائب، اسکولوں کی حالت خستہ، سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ بجلی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کر کے عوام پر ظلم کیا جا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ ”عوام کے ٹیکسوں سے بھرے خزانے کو مخصوص طبقات کے مفاد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔پریس کانفرنس کے اختتام پر وزیر خزانہ عبدالماجد خان اور وزیر خوارک آزاد حکومت ریاست جموں وکشمیر نے اسعفیٰ کا اعلان کر دیا۔پریس کانفرنس کے اختتام پر عبدالماجد خان نے باضابطہ طور پر اعلان کیا۔میں اپنے ضمیر، اصولوں اور ریاستی وفاداری کے تقاضوں کے مطابق وزارتِ خزانہ سے استعفیٰ دیتا ہوں۔ میرے ساتھی وزیر خوراک نے بھی اپنا استعفیٰ وزیر اعظم کو ارسال کر دیا ہے۔ ہم کسی ایسی حکومت کا حصہ نہیں رہ سکتے جو عوام دشمن اور آئین شکن ہو۔انہوں نے مزید کہا کہ وہ اپنی آئندہ سیاسی حکمت عملی کا اعلان مشاورت کے بعد کریں گے، تاہم ان کا مؤقف ”ریاستی وحدت، آئین کی بالادستی، اور مہاجرین کے حقوق کے تحفظ” پر قائم رہے گا۔





